تتلیوں کے موسم میں

نوچنا گلابوں کا
ریت اس نگر کی ہے
اور نہ جانے کب سے ہے

دیکھ کر پرندوں کو
باندھنا نشانوں کا
ریت اس نگر کی ہے
اور نہ جانے کب سے ہے

تم ابھی نئے ہو نہ
اس لئے پریشاں ہو
آسمان کی جانب
اس طرح سے مت دیکھو
آفتیں جب آنی ہوں
ٹوٹنا ستاروں کا
ریت اس نگر کی ہے
اور نہ جانے کب سے ہے

اس شہر کے باشندے
نفرتوں کو بو کر بھی
انتظار کرتے ہیں
فصل ہو محبّت کی
چھوڑ کر حقیقت کو
ڈھونڈنا سرابوں کا
ریت اس نگر کی ہے
اور نہ جانے کب سے ہے

اجنبی فضاؤں میں
اجنبی مسافر سے
اپنے ہر تعلّق کو
دائمی سمجھ لینا
اور جب بچھڑ جانا
مانگنا دعاؤں میں
ریت اس نگر کی ہے
اور نہ جانے کب سے ہے
شاعر نہ معلوم